سنے وہ دل کی صدا ایسا سلسلہ بھی نہیں
میں اس سے بات کروں اتنا حوصلہ بھی نہیں
قید سے آزاد ہوا پنچھی تو پھر یور نا سکا
سزا اس جرم کی کاٹی کے جو کیا بھی نہیں
لہو لہو ہے داستان ، اشک اشک اپنی کھاتا
سنائیں کیا ! کے اب کہنے کو کچھ رہا بھی نہیں
زندگی ہم نے تجھے ہر رنگ میں آزمایا ہے
بس ، کے اب اور جینے کی دل میں تمنا بھی نہیں
دل لہو ، چاک جگر ، سوکھتے ہوئے لب و جاں
موت کیا مارے گی ، کے جینے کا گمان بھی نہیں
وہ مانگتا ہے کاش ، چاند ستاروں کی چمک
اور میرے ہاتھ میں مٹی کا ایک دیا بھی نہیں . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ