ٹوٹ کر چاہا تھا جسے وہی دھوکہ دے جائے گا ،
ٹوٹ کر چاہا تھا جسے وہی دھوکہ دے جائے گا ،
بنا کشتی کے مسافر کیسے ساحل تک آئے گا .
سوکھے پتوں کی طرح یوں بکھر جائے گی زندگی اپنی ،
سوچا نا تھا یہ وقت ہمیں اس موڑ پے بھی لائے گا .
میں نے چاند کی تمنا میں ، گنوا دیے تارے بھی ،
اس اونچی اُڑان میں کہاں معلوم تھا کہ ?فافلہ ہی چھوٹ جائے گا .
اپنی ہی لگائی آگ میں اپنا ہی وجود جل جائے گا ،
کس کو خبر تھی یہ وقت بھی ہم پے آئے گا .
جب ریگستان کی ریت ہی اپنا مقدر تھی تو ،
کیوں سوچا ہم نے کہ ہمیں وہ مل جائے گا .
اپنے ہی بنائے جال میں شکاری خود ہی قید ہو جائے گا ،
کوئی یوں بھی بھلا اپنا مقدر لکھوائے گا .
زندگی تپتی دھوپ کے تلے یوں ہی چلی جا رہی ہے ،
کیا اب کوئی پانی پلانے والا نہیں آئے گا . . .
ٹوٹ کر چاہا تھا جسے وہی دھوکہ دے جائے گا ،
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ