تم نے تو کہہ دیا کے محبت نہیں ملی ،
مجھ کو تو یہ بھی کہنے کی مہلت نہیں ملی ،
نیندوں کے دیس جاتے کوئی خواب دیکھتے ،
لیکن دیا جلانے سے فرصت نہیں ملی ،
تجھ کو تو خیر شہر کے لوگوں کا خوف تھا ،
اور مجھ کو اپنے گھر سے اِجازَت نہیں ملی ،
پھر اختلاف رئی کی صورت نکل پڑی ،
اپنی یہاں کسی سے بھی عادت نہیں ملی ،
بیزار یوں ہوئے کے تیرے عہد میں ہمیں ،
سب کچھ ملا سکون کی دولت نہیں ملی . . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ