اُداس شام، دلِ سوگوار تنہائی
ہر ایک سمت ہوئی بے کنار تنہائی
بچھڑ گئے ہیں سبھی برگ و بار پیڑوں سے
سِسک رہی ہے لبِ شاخسار تنہائی
تمہارے نقشِ قدم پر جبِین رکھ رکھ کر
رہی ہے دیر تلک اشکبار تنہائی
پُکارتا ہے یہ کس لَے میں ڈُوبتا ہوا دل
جو لوٹ آتی ہے پھر بار بار تنہائی
میرے وجود سے مانُوس اسقدر ہے کہ اب
تمھارے بغیر رہے بے قرار تنہائی
بچی ہے جتنی اُداسی بھی تیرے دامن میں
اسے بھی میرے لہو میں اتار تنہائی
ہمارا ربط کہاں بستیوں کی رونق سے
ہمارا تم پہ بھی کب اختیار تنہائی
تمہارا مان بجا اپنی وحشتوں پہ مگر
ہمارے ساتھ بھی کچھ دن گزار تنہائی
دل تباہ! تیری یاد ، شب کا ویرانہ
دھوئیں میں لپٹا ہوا ہے مزارِ تنہائی
Posted on May 19, 2011
سماجی رابطہ