اسے کیا خبر کے پلک پلک روش ستارہ گری رہی

اسے کیا خبر کے پلک پلک روش ستارہ گری رہی
اسے کیا خبر کے تمام شب کوئی آنکھ دل سے بھری رہی

کوئی تار تار نگاہ بھی تھی سیڈ آئنہ ، اسے کیا خبر
کسی زخم زخم وجود میں بھی ادائے چارہ گری رہی

میں اسیر شام قفس رہا مگر اے ہوائے دیار دل
سر طاق مطلع آفتاب مِری نگاہ دھری رہی

سفر ایک ایسا ہوا تو تھا کوئی ساتھ اپنے چلا تو تھا
مگر اس کے بعد تو یوں ہوا نہ سفر نہ ہم سفری رہی

وہ جو حرف - ای بخت تھا لوح جا پہ لکھا ہوا ، نہ مٹا سکے
کف ممکنات پہ لمحہ لمحہ ازل کی نقش گری رہی

دشت ہجر سے آ چکے بہت اپنی خاک اڑا چکے
وہی چاک رہا وہی کھوئے دربدری رہی

وہی خواب خواب حکایتیں وہی خالد اپنی روایتیں
وہی تم رہے وہی ہم رہے وہی دل کی بے ہنری رہی

Posted on Aug 23, 2012