وہ جو دعویدار ہے شہر میں سبھی کا نبز شناس ہوں

وہ جو دعویدار ہے شہر میں سبھی کا نبز شناس ہوں
کبھی آ کے مجھ سے تو پوچھتا کے میں کس کے غم میں اداس ہوں

یہ میری کتاب حیات ہے اسے دل کی آنکھ سے پڑھ ذرا
میں ورق ورق تیرے سامنے تیرے روبرو تیرے پاس ہوں

یہ تیری امید کو کیا ہوا کبھی تو نے غور نہی کیا ؟
کسی شام تو نے کہا تو تھا تیری سانس ہوں تیری آس ہوں

یہ جو شہر فن میں قائم ہے سو تیرے طفیل ہی نام ہے
میرے شعر کیوں نا گداز ہوں کہہ تیرے لبوں کی مٹھاس ہوں

یہ تیری جدائی کا غم نہی کے یہ سلسلے تو ہیں روز کے
تیری ذات اس کا سبب نہیں کئی دن سے یوں ہی اداس ہوں

کسی اور آنکھ سے دیکھ کر مجھے ایسے ویسے لقب نا دے
تیرا اعتبار ہوں جان مین نا گمان ہوں نا قیاس ہوں . . . !

Posted on Oct 25, 2011