وہ چارہ گر بھی اُسے دیر تک نا پہچانا

فگار پاؤں میرے ، اشک نارسا میرے
کہیں تو مل مجھے اے گم شدہ خدا میرے

میں شمع کشتہ بھی تھا صبح کی نوید بھی تھا
شکست میں کوئی انداز دیکھتا میرے

وہ درد دل میں ملا ، سوز جسم و جان میں ملا
کہاں کہاں اُسے ڈھونڈا جو ساتھ تھا میرے

ہر اک کے شعر میں میں اس کا عکس دیکھتا ہوں
میری زباں سے جو اشعار لے گیا میرے

سفر بھی میں تھا مسافر بھی میں تھا راہ بھی میں
کوئی نہیں تھا کارے کوس میں سوا میرے

وفا کا نام بھی زندہ ہے میں بھی زندہ ہوں
اب اپنا حال سنا مجھ کو بیوفا میرے

وہ چارہ گر بھی اُسے دیر تک نا پہچانا
جگر کا زخم تھا نغموں میں ڈھل گیا میرے

Posted on Sep 23, 2011