وہ خیال تھا کوئی دھنک نما

وہ خیال تھا کوئی دھنک نما یا کوئی عکس تھا میرے روبرو
جو مجھے ہر طرف سے تو لگا ، وہ تو ہی تھا یا کوئی ہو بہو ؟

بیان میں تھی وہ چاشنی کے مہک رہا تھا حرف حرف
جیسے خوشبوؤں کی زبان میں کوئی کر رہا ہو گفتگو

نہیں کچھ خبر کے کس گھڑی تیرے راستوں کا سِرا ملے
تیرے نقش پا کی تلاش میں لگی تو ہے میری جستجو

بس دیکھنا ہے کس طرح وہ جی رہا ہے میرے بغیر
یوں تو دل میں ہے وہ آج بھی جسے ڈھونڈتا ہوں کو با کو

یہ یاد تھا کے دعا کروں پر اُٹھے رہے میرے ہاتھ یوں
جیسے خواہشوں کے ہجوم میں کہیں کھو گئی تیری آرزو . . . . !

Posted on Jan 11, 2012