یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا

یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا . .
اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا .

جس طرح سے تھوڑی سی تیرے ساتھ کٹی ہے ،
باقی بھی اسی طرح گزر جائے تو اچھا .

دنیا کی نگاہوں میں برا کیا ہے بھلا کیا ،
یہ بوجھ اگر دل سے اُتَر جائے تو اچھا .

ویسے تو تمہی نے مجھے برباد کیا ہے ،
الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا .

ویسے ہی قیامت ہے تیرے حسن کا جلوہ ،
ٹپ ٹپ کے اگر اور نکھر جائے تو اچھا .

اس حسن مجسم کی کوئی نیند نا لوٹے ،
کچھ دیر ابھی رات ٹھہر جائے تو اچھا .

جس صبح کی تقدیر میں لکھی ہو جدائی ،
اس صبح سے پہلے کوئی مر جائے تو اچھا .

جا کر تیری محفل سے کہاں چین ملے گا . .
اب اپنی جگہ اپنی خبر جائے تو اچھا . . . !

Posted on Jun 28, 2012