زندگی جو مجھے مدتوں آزماتی رہی
ہر لمحہ میری مشکلوں کو بڑھاتی رہی
جینے کو تو میں یوں ہی زندگی جیتا رہا
میں سانس لیتا رہا ، وہ کرم فرماتی رہی
مصیبتوں کا ہنس کر میں نے سامنا جو کیا
وہ مجھ پر اور بھی مصیبتیں ڈھاتی رہی
میں اسکی نوازشوں پر مسکراتہ رہا
اور وہ تانزیا مجھ پر مسکراتی رہی
زندگی جینے کا سلیقہ نا آیا مجھے
شاید اسی لیے وہ مجھے ستاتی رہی
اب تو باقی نا رہی کسی چیز کی طلب
دیس پَردیس وہ مجھے اتنا پھراتی رہی
کس کو رفیق سمجھوں اور کس کو رقیب
اپنی پرچھائی سے بھی مجھے ڈراتی رہی
بھری محفل میں خود کو محسوس کیا تنہا
مجھے ہر لمحہ یہ کس کی یاد دلاتی رہی
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ