زندگی یوں تھی کے جینے کا بہانہ تو تھا
ہم فقط زیب حکایت تھے ، فسانہ تو تھا
ہم نے جس جس کو بھی چاہا تیرے ہجراں میں وہ لوگ
آتے جاتے ہوئے موسم تھے ، زمانہ تو تھا
اب کے کچھ دل ہی نا مانا کے پلٹ کر آتے
ورنہ ہم در با دروں کا تو ٹھکانا تو ہے
یار آغیار کے ہاتھوں میں کمانیں تھی فراز
اور سب دیکھ رہے تھے کے نشانہ تو تھا . . . !
Posted on Jul 24, 2012
سماجی رابطہ