ادھوری

ادھوری

چوڑیوں کے بغیر کلائیاں ادھوری سی ہیں
تیرے نام لکھی تو بہت تحریریں سب ادھوری سی ہیں

تقدیر کے لکھے پر غور کیا تو محسوس ہوا
رنگ حنا کے بغیر ہتھیلیاں ادھوری سی ہیں

خواب تو وہی ہیں جہاں نما قافلوں جیسے
پر انکی سب تعبیریں ادھوری سی ہیں

ٹوٹ کر گرتے بھی نہیں شاخوں سے کچھ پھول
بے بو سے ہیں خوشبویں انکی ادھوری سی ہیں

چہکاریں پرندوں کی مہکار ہماری پہلی سی نہیں
مسکراہٹیں ابھی بھی ہماری کچھ ادھوری سی ہیں

منتظر اقرار قید میں ابھی بھی ہے
زنجیروں کے بغیر پیروں کی روانیاں ادھوری سی ہیں

Posted on Feb 16, 2011