بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا
نہ ایراں میں رہے باقی، نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصرو کسریٰ
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذرؓ و دِلق اویسؓ و چادرِ زہراؓ
حضورِ حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا
ندا آئی کہ آشوبِ قیامت سے یہ کیا حکم ہے
گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحائے!
لبلب شیشۂ تہذیبِ حاضر ہے مے لَا سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ اِلاّ
دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمان جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا؟
Posted on May 07, 2011
سماجی رابطہ