حیراں ہوں زندگی کی انوکھی اُڑان پر
پاؤں زمیں پر ہیں ، مزاج آسمان پر
آتا نہیں یقین کسی کی زبان پر
بادل کا ہو رہا ہے گُماں بادبان پر
کِرنوں کے تیر چلنے لگے ہیں جہان پر
بیٹھا ہوا ہے کون فلک کی مچان پر
یہ زخم تو ملا تھا کسی اور سے مجھے
کیوں شکل تیری بننے لگی ہے نشان پر
اتنے ستم اُٹھا کے تُو زندہ ہے کس طرح
کتنا یقیں کروں میں تری داستان پر
تصویر اس کی میں نے سجانے کی بُھول کی
سارا جہان ٹُوٹ پڑا ہے دُکان پر
چھوٹا سا اِک چراغ بُجھانے کے واسطے
ٹھہری رہی ہے رات مرے سائبان پر
گھر سے نکل رہا ہے کوئی اور ہی عدیم
تختی لگی ہوئی ہے کسی کی مکان پر
Posted on May 20, 2011
سماجی رابطہ