کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی

تھا جہاں مدرسۂ شیری و شہنشاہی
آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی
نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں
وہ شبانی کہ ہے تمہیدِ کلیم الہیٰ
لذتِ نغمہ کہاں مرغِ خوش الحان کیلئے
آہ! اس باغ میں کرتا ہے نفس کوتاہی
اک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک
ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی
صفتِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی

Posted on May 09, 2011