کبھی دھوپ دے کبھی بدلیاں

کبھی دھوپ دے کبھی بدلیاں

کبھی یوں ملیں کوئی مصلحت کوئی خوف دل میں ذرا نا ہو
مجھے اپنی کوئی خبر نا ہو ، تجھے اپنا کوئی پتہ نا ہو

کبھی دھوپ دے ، کبھی بدلیاں ، دل و جان سے دونوں قبول ہیں
مگر اس محل میں نا قید کر جہاں زندگی کی ہوا نا ہو

وہ ہزار باغوں کا باغ ہو ، تیری برکتوں کے بہار سے
جہاں کوئی شاخ ہری نا ہو ، جہاں کوئی پھول کِھلا نا ہو

تیرے اختیار میں کیا نہیں ، مجھے اس طرح سے نواز دے
یوں دعائیں میری قبول ہوں میرے لب پے کوئی دعا نا ہو

کبھی ہم بھی اس کے قریب تھے ، دل و جان سے بڑھ کے عزیز تھے
مگر آج ایسے ملا ہے وہ کبھی پہلے جیسے ملا نا ہو

Posted on Feb 16, 2011