خواب عذاب

خواب عذاب

وہ ساری باتیں خواب ہوئیں
اور خواب سے پھر عذاب ہوئیں
جب تم کو صباء کے جھونکے سے
پیغام ہمارا ملتا تھا
جب میری اک نظر سے ہی
چہرہ یہ تمھارا کھلتا تھا
کچھ یاد سا تم کو ہے جاناں
جب فون کی عادت روز کی تھی
کچھ دیر جو مجھ کو ہو جاتی
تم گھنٹوں روٹھا کرتی تھی
کبھی گیتوں کی کبھی شاعروں کی
تم خواہش مجھ سے کرتی تھی
کبھی پیار تھا میری باتوں سے
میرے چہرے سے میری آنکھوں سے
اور جھانک کے میری آنکھوں میں
تم خود کو ڈھونڈا کرتی تھی
اک دو دن دیکھ نا پاؤ تو
تم بے کل بے کل رہتی تھی
اور اب تو ایسا عالم ہے
کوئی چاہت ہے نا الفت ہے
کیا پیار محبت اور وفا
اس ذکر سے تم کو وحشت ہے
میں لاکھ تسلّی خود کو دوں
کے اب بھی تیری خواہش ہوں
انجان بظاہر لگتے ہو
میں اب بھی تیرا محور ہوں
پر دھوکہ آخر دھوکہ ہے
کب تک دل کو بہلائے گا
دو پل کی خوشیاں دے کر یہ
مجھے صدیاں لہو رلائے گا
کیوں تم تقدیر سے لڑتے ہو ؟

Posted on Feb 16, 2011