میں خود کو کانچ کی گڑیا سمجھتی ہوں
جو گرتی ہے
تو
پل میں ٹوٹ جاتی ہے
میں وہ گڑیا
جو گر کر ہمیشہ ٹوٹ جاتی ہے
مگر پھر خود
سمیٹے اپنے کانچ جیسے خواب
کسی انجان سے رستے
یونہی تنہائیوں کے بیچ
سمٹنے کے عمل سے خود گزرتی ہے
گذر کے پھر سنورتی ہے
مگر وہ کرچیاں اسکی
جو دِل میں چُبھ سی جاتی ہیں
کیوں
یہ احساس دلاتی ہیں
کے میں کیوں کانچ کی گڑیا کی مانند ہوں
مجھے بھی پتھروں کے ہاتھ میں
پتھر ہی رہنا تھا
نہ یوں کانچ بُنا تھا
نہ گڑیا سا رہنا تھا
بس اک پتھر كا دِل ہوتا
تو میں بھی زندگی جیتی . . . . ! ! !
Posted on Mar 24, 2013
سماجی رابطہ