میں جُرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا

میں جُرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا
ظالِم اُسے کہیے، جو دُہائی نہیں دیتا

کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ
میں ورنہ تمہیں اِذنِ رہائی نہیں دیتا

چَرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوارِ بدن پر
اور دستِ ستمگر بھی دِکھائی نہیں دیتا

آنکھیں بھی ہیں، رستا بھی، چراغوں کی ضیاء بھی
سب کچھ ہے، مگر ہاتھ سُجھائی نہیں دیتا

اب اپنی زمیں چاند کی مانند ہے انور
بولیں تو کسی کو بھی سُنائی نہیں دیتا

Posted on May 19, 2011