میری تربت پر اگر آئیے گا

میری تربت پر اگر آئیے گا
عمر ِرفتہ کو بھی بُلوائیے گا

سب کی نظروں پہ نہ چڑھئیے اتنا
دیکھیئے دل سے اُتر جائیے گا

آئیے نزع میں بالیں پہ مری
کوئی دم بیٹھ کے اُٹھ جائیے گا

وصل میں بوسۂ لب دے کے کہا
مُنہ سے کچھ اور نہ فرمائیے گا

ہاتھ میں نے جو بڑھایا تو کہا
بس، بہت پاؤں نہ پھیلائیے گا

زہر کھانے کو کہا، تو، بولے
ہم جلا لیں گے جو مرجائیے گا

حسرتیں نزع میں بولیں مُجھ سے
چھوڑ کر ہم کو کہاں جائیے گا

آپ سنیئے تو کہانی دل کی
نیند آجائے گی سو جائیے گا

اتنی گھر جانے کی جلدی کیا ہے،
بیٹھیئے ، جائیے گا، جائیے گا

کہتے ہیں، کہہ تو دیا، آئیں گے
اب یہ کیا چِڑ ہے کہ کب آئیے گا

ڈبڈبائے مرے آنسو، تو، کہا
روئیے گا تو ہنسے جائیے گا

رات اپنی ہے ٹھہرئیے تو ذرا
آئیے بیٹھیئے، گھر جائیے گا

جس طرح عمر گزرتی ہے امیر
آپ بھی یونہیں گزر جائیے گا

Posted on May 19, 2011