مجھے آپ کیوں نا سمجھ سکے
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا ، سر بزم رات یہ کیا ہوا
میری آنکھ کیسے چھلک گئی ، مجھے غم ہے یہ برا ہوا
میری زندگی کے چراغ کا ، یہ مزاج کچھ نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی ، نا جلا ہوا نا بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمن جان ملا ، وہ پختہ کار جفا ملا
نا کسی کی ضرب غلط پڑی ، نا کسی کا وار خطا ہوا
مجھے راستے میں پڑا ہوا ، ایک اجنبی کا خط ملا
کہیں خون دل سے لکھا ہوا ، کہیں آنسوں سے مٹا ہوا
مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی ، ستم ظریف میری طرح
کئی منزلوں کا تھکا ہوا ، کہیں راستوں کا لٹا ہوا
مجھے اس کا کوئی بھی حق نہیں ، کے میں شریک بزم خلوص ہوں
نا میرے پاس کوئی نقاب ہے ، نا کچھ آستین میں چھپا ہوا
یہ جو سر جھکا کے گزر گئے ، میرے سامنے سے ابھی ابھی
میرے اپنے شہر کے لوگ تھے ، میرے گھر سے گھر تھا ملا ہوا
مجھے آپ کیوں نا سمجھ سکے یہ خود اپنے دل سے پوچھیے
میری زندگی کی کتاب کا ورق ورق ہے کھلا ہوا . . . . . . . . . .
مجھے آپ کیوں نا سمجھ سکے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ