اداسیوں کا سبب جو لکھنا

اداسیوں کا سبب جو لکھنا

اداسیوں کا سبب جو لکھنا ،
تو یہ بھی لکھنا
کے چاند تارے ،
شہاب آنکھیں بدل گئے ہیں
وہ زندہ لمحے جو تیری راہوں میں
تیرے آنے کے منتظر تھے
وہ تھک کے راہوں میں ڈھل گئے ہیں
وہ تیری یادیں ، خیال تیرے ،
وہ رنج تیرے ، ملال تیرے
وہ تیری آنکھیں ، سوال تیرے
وہ تم سے میرے تمام
رشتے بچھڑ گئے ہیں ،
اُجڑ گئے ہیں
اداسیوں کا سبب جو لکھنا
تو یہ بھی لکھنا
لرزتے ہونٹوں پے لڑکھڑاتی ،
دعا کے سورج
پگھل گئے ہیں
تمام سپنے ہی جل گئے ہیں
بعد مرنے کے تم میری کہانی لکھنا
کیسے ہوئی برباد میری جوانی لکھنا
یہ بھی لکھنا کے میرے ہونٹ ہنسی کو ترسے کیسے
بہتا رہا میری آنکھوں سے پانی لکھنا . . .

Posted on Feb 16, 2011