اُس نے دل پھینکا خریداروں کے بِیچ
پھر کوئی محشر ہے بازاروں کے بِیچ
تُو نے دیکھی ہے پُرستش حُسن کی؟
آ کبھی اپنے پرستاروں کے بِیچ
سر ہی ٹکرا کے گُزر جاتے ہو کیوں؟
گھر بھی کچھ ہوتے ہیں دیواروں کے بِیچ
تُو کہاں اس راہ گزرِ دہر میں؟
پُھول تو کِھلتے ہیں گلزاروں کے بِیچ
یہ سماں تُو نے بتایا تھا کہاں؟
آ پلٹ جائِیں اُنہی غاروں کے بِیچ
کوئی سِکہ بِیچ میں گرتا نہیں
چاند وہ کشکول ہے تاروں کے بِیچ
وہ کبوتر، گنبدوں پر یاد ہیں
وہ پتنگ اُن دونوں میناروں کے بِیچ
فاختائیں بھی، ابابیلیں بھی ہیں
کچھ نہیں موجود منقاروں کے بِیچ
رات بھر آتی ہے آہوں کی صدا
کس کو چُنوایا ہے دیواروں کے بِیچ
یوں اُسے دیکھا غنِیموں میں عدیم
جیسے کوئی پُھول تلواروں کے بِیچ
Posted on May 19, 2011
سماجی رابطہ