وہ پانی کی لہروں پہ کیا لکھ رہا تھا
خُدا جانے حرفِ دعـــا لکھ رہـــا تھا
لکھا تھا جس نے ناول وفا کا ادھورا
وہی شخص پیار کی انتہا لکھ رہا تھا
بھلا کـــرتے کـــرتے گُـــزری جوانی
مگر پھر بھی خود کو بُرا لکھ رہا تھا
مُحبت میں نفـرت ملی تھی اُسے بھی
جو ہر شخص کو بے وفا لکھ رہا تھا
ذرا اُس کی آنکھوں سے آنسو نہ نکلے
وہ جس وقت حرفِ ســــزا لکھ رہا تھا
نمــــــازِ محبـت میــں محسؔـــن وہ اپنــے
ھوئے تھے جو سجدے قضا لکھ رہا تھا
Posted on Jan 28, 2013
سماجی رابطہ