یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
جب آنکھ میں خواب دمکتے تھے
جب دل میں داغ چمکتے تھے
جب پلکیں شہر کے رستوں میں
اشکوں کا نور لٹاتی تھی
جب سانس اجلے چہروں کی
تن من میں پھول سجاتی تھی
جب چاند کی رم جھم کرنوں سے
سوچوں میں بھنور پر جاتے تھے
جب ایک تلاطم رہتا تھا
اپنے بے انتھ خیالوں میں
ہر عہد نبھانے کی قسمیں
خط خون سے لکھنے کی رسمیں
جب عام تھی ہم دل والوں میں
اب اپنے پھیکے ہونٹوں پر
کچھ جلتے بجھتے لفظوں کے
یاقوت پگھلتے رہتے ہیں
اب اپنی گم سم آنکھوں میں
کچھ دھول ہے بکھری یادوں کی
کچھ گرد آلودہ سے موسم ہیں
اب دھوپ اگلتی سوچوں میں
کچھ پیمان جلتے رہتے ہیں
اب اپنے ویران آنگن میں
جتنے صبحوں کی چاندی ہے
جتنی شاموں کا سونا ہے
اس کو خاکستر ہونا ہے
اب یہ باتیں رہنے دیجیئے
جس عمر میں قصے بنتے تھے
اس عمر کا غم سہنے دیجیئے
اب اپنی اجڑی آنکھوں میں
جتنی روشن سی راتیں ہیں
اس عمر کی سب سوغاتیں ہیں
جس عمر کے خواب کھیل ہوئے
وہ پچھلی عمر تھی بیت گئے
وہ عمر بتائے سال ہوئے
اب اپنی دید کے رستے میں
کچھ رنگ ہے گزرے لمحوں کا
کچھ اشکوں کی باراتیں ہیں
کچھ بھولے بسرے چہرے ہیں
کچھ یادوں کی برساتیں ہیں
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
Posted on May 06, 2011
سماجی رابطہ