آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں
برق کم حوصلہ ہے ہم بھی تو
دل ایک بے قرار رکھتے ہیں
غیر ہے مراد عنایت ہے
ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں
نا نگاہ نا پیام نا وعدہ
نام کو ہم بھی یار رکھتے ہیں
ہم سے خوش زم زامہ کہاں یوں تو
لب و لہجہ ہزار رکھتے ہیں
چھوٹے دل کے ہیں بُتاں مشہور
بس یہی اعتبار رکھتے ہیں
پھر بھی کرتے ہیں میر صاحب عشق
ہیں جوان اِخْتِیار رکھتے ہیں . . . !
Posted on Aug 17, 2012
سماجی رابطہ