اب کے سال پونم میں جب تو آئیگی ملنے ،
ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکینیں بچھا دینگے شوخ تیری قدموں پر
ہم نگاہوں سے تیری آرْتی اتاریں گے
تو کے آج قاتل ہے ، پھر بھی راحت دل ہے
زہر کی ندی ہے تو ، پھر بھی قیمتی ہے تو
پست حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دے گیں
زندگی ادھر آ جا ہم تجھے گزاریں گیں
آہنی کلیجے کو زخم کے ضرورت ہے
انگلیوں سے جو ٹپکے اس لہو کی حاجت ہے
آپ زلف جاناں کے خام سنواریے صاحب
زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گئی
کوئی ساتھ میں اپنے ، آئے یا نہیں آئے
جو ملے گا رستے میں ہم اسے پکاریں گیں . . . ! ! !
Posted on Mar 30, 2012
سماجی رابطہ