ادھوری ہے زندگی


تم یاد ہو تو نقش ہو میرے حَواس پر
تم اشک ہو تو میرے دکھوں کا علاج ہو

تم خواب ہو تو میری آنکھوں میں ہو کہیں
تم وہم ہو تو مجھ کو حقیقت سے کیا غرض

تم باعث سفر ہو ، ہنر کی اُڑان ہو
تم نیند ہو تو سو کے گزاریں گے یہ حیات

تم حسن ہو تو میرے تخیل کی جان ہو
تم رات ہو تو مجھ کو نہیں صبح کی طلب

تم نور بن کے دل میں سامعی ہو آج کل
تم خاک ہو تو خاک نشینوں کی ہو تلاش

تم درد ہو تو روح پہ چھائے ہو آج کل
تم دشت ہو تو میں بھی مسافر ہوں دشت کی

تم چاند ہو تو تلخ اندھیروں کی فکر کیا
تم بے نیاز ہو تو زمانے سے ہو الگ

تم رنگ ہو تو پھر یہ بہاروں کا ذکر کیا
تم بے ثمر رتوں میں ، بہاروں کی ہو امید

تم راہگزر شوق میں جذبہ جنون کا ہو
تم آرزو ہو ، اہل تمنا کی ہو خلش

تم رت جگوں کی بھیڑ میں لمحہ سکون کا ہو
تم بیوفا رتوں میں حوالہ ہو عشق کا

تم بے بسی ہو پھر بھی محیط حَواس ہو
تم اک کرن ہو نور ازل میں ڈھلی ہوئی

تم تازگی ہو ، شبنمی پھولوں کی آس ہو
تم گہرے پانیوں میں چھپے موتیوں کا لمس

تم موت کے سفر میں نشان حیات ہو
تم میری چشم نم کے ستاروں کی کہکشاں

تم حسن بےمثال ، میری کائنات ہو
تم جب سے ہو گئے ہو میری دسترس سے دور

میں جی رہی ہوں کیوں کے ضروری ہے زندگی
سانسوں کے بوجھ کو بھی اٹھایا ہے روح نے

لیکن تیرے بغیر . . .
ادھوری ہے زندگی

Posted on Feb 16, 2011