آجاؤ لوٹ کے
خاموش پلکوں پہ دریا رکا ہے ابھی
تمھارے انتظار میں ایک لمحہ رکا ہے ابھی
صدیوں کا فاصلہ تو طے کرلیا ہم نے
صرف دو قدموں کا سفر رکا ہے ابھی
وقت کے سفر پہ رواں ہو تم یہ جان لو
تمھارے پیار کے لیے ایک شخص رکا ہے ابھی
آجاؤ کے زندگی تمام نا ہو جائے میری
بڑے امتحان سے موت کو ٹالا ہے ابھی
صدائیں دے دے کے بےآواز نا ہو جاؤں کہیں میں
آجاؤ لوٹ کے ایک جملہ میری زبان پہ رکا ہے ابھی
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ