سودا ہمارا کبھی بازار تک نہیں پہنچا
عشق تھا جو کبھی اظہار تک نہیں پہنچا
یوں تو گفتگو بہت ہوئے ان سے پھر بھی
سلسلہ کبھی یہ پیار تک نہیں پہنچا
جانے کیسے ہو گیا واقف تمام شہر
داستان عشق یوں تو کبھی اخبار تک نہیں پہنچا
شرطیں ایک دوسرے کی منظور تھی یوں تو
پر مسودہ ہمارا کبھی قرار تک نہیں پہنچا
گہرائی دوستی میں ناپتا بھی کیسی
رشتہ ہمارا کبھی تکرار تک نہیں پہنچا
انا میری مجھے اجازت نہیں دیتی
فقط اسلئے زیدی دربار تک نہیں پہنچا . . . !
Posted on Apr 19, 2012
سماجی رابطہ