چمن میں جب بھی صباء کو گلاب پوچھتے ہیں
تمہاری آنکھ کا احوال ، خواب پوچھتے ہیں
کہاں کہاں ہوئے روشن ہمارے بعد چراغ
ستارے دیدہ تر سے حساب پوچھتے ہیں
وہ تشنہ لب بھی عجب ہیں جو موج سحرا سے
سوراغ حبس ، مزاج سراب پوچھتے ہیں
کہاں بسی ہیں وہ یادیں اجاڑنا ہے جنہیں
دلوں کی بانجھ زمیں سے عذاب پوچھتے ہیں
برس پڑیں تیری آنکھیں تو پھر یہ بھید کھلا
سوال خود سے بھی اپنا جواب پوچھتے ہیں
ہوا کی ہمسفری سے اب اور کیا حاصل
بس اپنے شہر کو کھانا خراب پوچھتے ہیں
جو بے نیاز ہیں خود اپنے حسن سے محسن
کہاں وہ مجھ سے میرا انتخاب پوچھتے ہیں
Posted on Aug 25, 2012
سماجی رابطہ