حسن کو چاند ، جوانی کو کنول کہتے ہیں
اُنکی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
اُف ! وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں
پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا
ہم تو اسکو بھی تیری زلف کا بال کہتے ہیں
مجھ کو معلوم نہیں اس کے سوا کچھ بھی کاٹی
جو صدی وصل میں گزرے اسے پل کہتے ہیں . . . !
Posted on Jun 26, 2012
سماجی رابطہ