حضور یار میں حرف التجا کے رکھے تھے
چراغ سامنے جیسے ہوا کے رکھے تھے
بس اک اشک ندامت سے صاف کر ڈالے
وہ سب حساب جو ہم نے اٹھا کے رکھے تھے
تم ہی نے پاؤں نا رکھا ، ورنہ وصل کی شب
زمین پہ ہم نے ستارے بچھا کے رکھے تھے
ہوا کے پہلے ہی جھونکے سے ہار مان گئے
وہی چراغ جو ہم نے بچہ کے رکھے تھے
حصول منزل دنیا کچھ ایسا کام نا تھا
مگر جو راہ میں پتھر انا کے رکھے تھے .
Posted on Sep 22, 2011
سماجی رابطہ