جُھومتی ٹہنی پر اُس کا ہمنوا ہو جاؤں میں

جُھومتی ٹہنی پر اُس کا ہمنوا ہو جاؤں میں
وہ اگر ہے پُھول تو بادِ صبا ہو جاؤں میں

اُس کے چہرے پر بکھیروں اپنی کرنیں رات بھر
اُس کے آنگن میں کوئی جلتا دیا ہو جاؤں میں

ہر کسی کا ایک سا کردار تو ہوتا نہیں
بیوفا ہے وہ تو کیسے بیوفا ہو جاؤں میں

وادیوں میں جھومتی گاتی گھٹا ہو جائے وہ
لہلہاتے کھیت کی تازہ ہوا ہو جاؤں میں

اِنکسار اِک میرا اخلاقی فریضہ ہے عدیم
اِس کا مطلب یہ نہیں ہے گردِ پا ہو جاؤں میں

وہ پُجارن بن کے کیا گُزری پہاڑوں سے عدیم
ہر کوئی پتھر پُکارا، دیوتا ہو جاؤں میں

Posted on May 19, 2011