کبھی آہ لب پے مچل گئی کبھی اشک

کبھی آہ لب پے مچل گئی کبھی اشک آنکھ سے ڈھل گئے
وہ تمھارے غم کے چراغ ہیں کبھی بجھ گئے کبھی جل گئے

میں خیال و خواب کی محفلیں نا با قدر شوق سجا سکا
تمہاری ایک نظر کے ساتھ ہی میرے سب ارادے بدل گئے

کبھی رنگ میں کبھی روپ میں کبھی چھاؤں میں کبھی دھوپ میں
کہیں آفتاب نظر ہیں وہ کہیں مہتاب میں ڈھل گئے

جو فنا ہوئے غم عشق میں انہیں زندگی کا نا غم ہوا
جو نا اپنی آگ میں جل سکے وہ پرائی آگ میں جل گئے

یا انہیں بھی میری طرح جنون تو پھر ان میں مجھ میں یہ فرق کیا ؟
میں گرفت غم سے نا بچ سکا وہ حدود ای غم سے نکل گئے

Posted on Sep 26, 2011