خزاں کے موسم کی سرد شامیں
سراب یادوں کے ہاتھ تھا میں
کبھی جو تم سے حساب مانگیں
مایوسیوں کے نصاب مانگیں
بے نور آنکھوں سے خواب مانگیں
تو جان لینا کے خواب سارے
میری حدوں سے نکل چکے ہیں
تمہاری چوکھٹ پہ آ روکے ہیں
مسافتوں سے تھکی ہوئے ہیں
غبار راہ سے اٹے ہوئے ہیں
تمہاری گلیوں میں چپ کھڑے ہیں
کچھ اس طرح سے دارئ ہوئے ہیں
سوالی نظروں سے تک رہے ہیں
تمہاری چوکھٹ پہ جانے کب سے
جبیں جھکائے ہوئے کھڑے ہیں
Posted on Jul 02, 2011
سماجی رابطہ