سادہ سے اِک چہرے پر کیا جادوگر سی آنکھیں ہیں
جو دیکھے اِن کا ہو جائے
جو اُترے وہ تھاہ نہ پائے
کتنے سپنے جاگ رہے ہیں
اِن پلکوں کے سائے سائے
شمع شجر سی، چارہ گرسی، نامہ بر سی آنکھیں ہیں
انجانی پہچانی بھی
اپنی اور بیگانی بھی
ایک ہی منظر کا حصہ ہیں
عکس بھی اور حیرانی بھی
ساحل جیسی لگتی ہیں وہ اور بھنور سی آنکھیں ہیں
سادہ سے اِک چہرے پر کیا جادو گر سی آنکھیں ہیں
Posted on May 06, 2011
سماجی رابطہ