میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اُسے …
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا … .
اس کی پلکوں سے نیند چھنٹتی تھی …
اس کا لہجہ شراب جیسا تھا …
اس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا …
اس کا رخ مہتاب جیسا تھا
لوگ پڑتے تھے خد و خال اس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا …
بولتا تھا زبان خوشبو کی …
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے …
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اُسے
ساری آنکھیں تھیں آئینے اس کے . .
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ !
سب سے گُھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نما سراب تھا وہ …
خواب یہ ہے وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہی کوئی خواب تھا وہ …
دل کی دھرتی پے آسْمان کی طرح …
صورت سایہ و صحاب تھا وہ . .
اپنی نیندیں اس کی نظر ہوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اسے
میں نا دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑتے تھے آنچلوں میں اُسے
میں نے دیکھا ہے ان دنوں میں اسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دور کا فسانہ ہے
اس کے میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب یوں ہی کے حل اپنا بھی
داشتہ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر ان دنوں من وہ کیسا ہے
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اُسے
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اُسے . . . !
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اُسے
Posted on May 03, 2012
سماجی رابطہ