میں اس دن لوٹ آؤں گا

سنو تم نے کہا تھا نا ! !
مجھے جذبہ محبت سے کبھی جو تم پکارو گی
میں اس دن لوٹ آؤں گا ! !
تو دیکھو نا ! !
کئی لمحوں
کئی سالوں
کئی صدیوں
سے تیرا رستہ تکتی
یہ میری منتظر آنکھیں
میرے دل کی یہ دھڑکن اور سانسیں
بس تمہارا نام لیتی ہیں
وہی اک ورد کرتی ہیں
میری آنکھوں کے ساحل پر
تیری خواہش کی موجوں نے
بڑی ہلچل مچائی ہے
تیری تصویر ، سوکھے پھول اور تحفے !
تیری چاہت کی خوشبو میں
ابھی تک سانس لیتے ہیں
وہ سب رستے کے جن پر تم ہمارے ساتھ چلتے تھے
وہ سب رستے جہاں تیری ہنسی کے پھول کھلتے تھے
جہاں پیڑوں کی شاخوں پر
ہم اپنا نام لکھتے تھے
اُداسی سے بھرے منظر
تمھارے لوٹ کر آنے کی امیدیں دلاتے ہیں
سنو کچھ بھی نہیں بدلہ
تمھارے پاؤں کی آواز سننے کی
میرے کمرے کی بے ترتیب چیزیں منتظر ہیں
سنو ! ! !
تکمیل پاتی چاہتوں کو یوں ادھورہ تو نہیں چھوڑو
مجھے مت آزماؤ تم
چلو اب لوٹ آؤ تم . . . !

Posted on Apr 17, 2012