نجد وحشت میں وہ دمساز غزالی آنکھیں
روشنی دیتی ہوئی ، رات سے کالی آنکھیں
واقف غم ، متبسم ، متکلم ، خاموش
تم نے دیکھی ہیں کہیں ایسی نرالی آنکھیں ؟
دیکھ اب چشم تصور سے انہیں دیکھ ، اے دل
جو حقیقی تھیں ، ہوئیں اب وہ خیالی آنکھیں
ٹوٹتے جاتے ہیں پھر ضبط کے بندھن سارے
پھر الٹنے کو ہیں اشکوں کی پیالی آنکھیں
پھر کہے دیتی ہیں احوال غم و درد حیات
گرچے ہم نے تھیں بہت دیر سنبھالی آنکھیں
شام فرقت کے سنبھالے ہوئے پلکوں پہ دیے
سال بھر اب تو مناتی ہیں دیوالی آنکھیں
صبح امید کی صورت وہ فروزاں سے چراغ
لیے ڈھونڈ کے پھر ایسی جمالی آنکھیں . . . !
Posted on Jul 25, 2012
سماجی رابطہ