شام سے پہلے اک دیا جلانا چاہتا ہوں ،
میں آج اپنی محبت کو آزمانا چاہتا ہوں ،
یہ انا - پرست لوگ ہیں اندر سے ٹوٹے ہوئے ،
میں یہ بات دنیا والوں کو بتانا چاہتا ہوں ،
تیری ذات کی محرومیوں ، تیرے من کی یہ اداسیاں ،
مجھے موقع تو دے ، میں انہیں مٹانا چاہتا ہوں ،
تیرے ہاتھ میں میری رہبر ، تیرے نقش پا میری منزل کے ،
تجھے میں چِلْچلاتی دھوپ میں آنچل بنانا چاہتا ہوں ،
چھین لو سہارے مجھ سے ، اپنے پرائے سارے مجھ سے ،
بس دو حوصلہ مجھے ، میں خود کو منوانا چاہتا ہوں ،
پوچھا جو یاروں نے مسکراہٹ کا سبب تو کہنے لگا وقاص ،
میں ہنسی کے پردے میں درد اپنا چھپانا چاہتا ہوں . . . !
Posted on Aug 15, 2012
سماجی رابطہ