رکتا بھی نہیں ٹھیک سے چلتا بھی نہیں ہے
یہ دل کے تیرے بعد سنبھلتا بھی نہیں ہے
یہ شہر کسی آئینہ کردار بدن پر
الزام لگاتے ہوئے ڈرتا بھی نہیں ہے
اک عمر سے ہم اس کی تمنا میں ہیں بے خواب
وہ چند جو آنگن میں اترتہ بھی نہیں ہے
پھر دل میں تیری یاد کے منظر ہیں
ایسے میں کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے
اس عمر کے صحرا میں تیری یاد کا بادل
ٹلتا بھی نہیں اور برستا بھی نہیں ہے
ہمراہ بھی خواہش سے نہیں رہتا ہمارے
اور بام رفاقت سے اترتا بھی نہیں ہے . . . !
Posted on Apr 13, 2012
سماجی رابطہ