یوں دوست سارے اپنے اپنے رستے بدل گئے

یوں دوست سارے اپنے اپنے رستے بدل گئے

یوں دوست سارے اپنے اپنے رستے بدل گئے
کچھ پیچھے رک گئے تو کچھ آگے نکل گئے

حالات کی دھوپ ذرا سی دیر کو تیز کیا ہوئی
جتنے وفا کے پیکر تھے سارے پگھل گئے

وعدوں کے تارے راتوں سے باہر نا جا سکے
ارادوں کے دن نکلنے سے پہلے ہی ڈھل گئے

وفاؤں کے رنگ شبنم کے قطروں نے دھو دیے
محبت کے پھول جزبوں کی شدت سے جل گئے

طعنوں کے تیر دنیا کی کمانوں پے جب چڑھے
صبر کے دامن ہاتھوں سے یک دم پھسل گئے

آنکھیں کھلیں تو خوابوں کو برا لگا مگر
کچھ دیر وہ رہ کے مضطرب خود ہی بے حال گئے

پہلے پہل تو عجیب لگے بدلے ہوئے چہرے
پھر یوں ہوا کے وقت کے ساتھ ہم بھی سنبھل گئے

Posted on Feb 16, 2011