آنکھوں سے میری اس لیے لالی نہیں جاتی ، 
 یادوں سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی . 
 
 اب عمر نا موسم نا وہ وہ رستے کے وہ پلٹے ، 
 اس دل سے مگر خام خیالی نہیں جاتی . 
 
 مانگے تو اگر جان بھی تو ہنس کے تجھے دیں  گے ، 
 تیری تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی . 
 
 آئے کوئی آ کر یہ تیرے درد سنبھالے ، 
 ہم سے تو یہ جاگیر سنبھالی نہیں جاتی . 
 
 معلوم ہمیں بھی ہیں بہت سے تیرے قصے ، 
 پر بات تیری ہم سے اچھالی نہیں جاتی . 
 
 ہمراہ تیرے پھول کھلاتی تھی جو دل میں ، 
 اب شام وہی درد سے خالی نہیں جاتی . 
 
 ہم جان سے جائینگے تبھی بات بنے گی ، 
 تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی . . . . 
Posted on Oct 10, 2012







سماجی رابطہ