بے سدا لفظوں میں
وجه زندگی کہہ کے
وصل کی ضرورت پر
پھر سے زور دیتے ہیں
آج ایسا کرتے ہیں
ذکر وہی کرتے ہیں
نام اور دیتے ہیں
ضبط کے کناروں سے
درد آن لپٹا ہے
ٹوٹتے کنارے اب
درد اور دیتے ہیں
آج ایسا کرتے ہیں
درد سے الجھتے ہیں
ضبط چھوڑ دیتے ہیں
تار تار دامن کو
خار خار راہوں میں
رنجشیں بھلا کے ہم
آ کے جوڑ دیتے ہیں
آج ایسا کرتے ہیں
خود نہیں پلٹتے ہیں
راہ موڑ دیتے ہیں
سبز سبز معصوم میں
لال لال آنکھوں کے
خواب کی رگوں سے ہم
خون نچوڑ دیتے ہیں
آج ایسا کرتے ہیں
یہ بھی کر گزرتے ہیں
خواب توڑ دیتے ہیں
آ کے اب دعاؤں کو
ماتمی ردائوں میں
پھر سے کر کے الوداع
موقع اور دیتے ہیں
آج ایسا کرتے ہیں
دریا میں اترتے ہیں
رب پہ چھوڑ دیتے ہیں
Posted on Oct 01, 2012
سماجی رابطہ