داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے ،
ہم کو یہ تحفے تمہیں دوست بنانے سے ملے . .
ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے ،
وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے . .
خود سے مل جاتے تو چاہت کا بھرم رہ جاتا ،
کیا ملے آپ جو لوگوں کے ملنے سے ملے . .
کیسے منائیں کے انہیں بھول گیا تو اے کیف ،
ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے . .
Posted on Nov 28, 2012
سماجی رابطہ