گلوں میں رنگ بھرے ، باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کی گلشن کا کاروبار چلے
قفس اُداس ہے یارو ، صباء سے کچھ تو کہو
کہیں تو بحر خدا آج ذکر یار چلے
کبھی تو صبح تیرے کنج لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ ، یہ دل غریب سہی
تمھارے نام پہ آئینگے غمگسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیری عقیدت سنوار چلے
حضور یار ہوئی دفتر جنون کے طلب
گرھ میں لے کے گریبان کا تار تار چلے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کو یار سے نکلے تو سو در چلے . . . !
Posted on Aug 08, 2012
سماجی رابطہ