ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے

سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہے لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے

اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہنچے
اس کی آنکھوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے

جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے

Posted on May 13, 2014