کٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تُو نے کہا تو جی اُٹھے تُو نے کہا تو مر گئے
وقت ہی جُدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں تیرے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے
ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا اُمڈ اُمڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے
وہ بھی غُبار خواب تھا ہم بھی غُبار خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے
کوئی کنارِ آب جو بیٹھا ہوا ہے سر نِگوں
کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے
آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے
بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غُبار دُھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے
آبِ محیطِ عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تَیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے
اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدیم ڈر گیا ہم بھی عدیم ڈر گئے
اس کے سلوک پر عدیم اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اُٹھے وہ نہ ملا تو مر گئے
کٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے
Posted on May 19, 2011
سماجی رابطہ