سَر طاقِ جان نہ چراغ ہے ، پسِ بام شب نہ سحر کوئی ،
عجب اک عرصہ دراز ہے ، نہ گمان ہے نہ خبر کوئی .
نہیں اب تو کوئی ملال بھی ، کسی واپسی کا خیال بھی ،
غمِ بے کسی نے مٹا دیا ، میرے دِل میں تھا بھی اگر کوئی .
تجھے کیا خبر كے رات بھر ، تجھے دیکھ پانے کو اک نظر ،
رہا ساتھ چاند کے منتظر ، تیری کھڑکیوں كے اُدھر کوئی .
سَر شاخِ جان تیرے نام کا ، عجب اک تازہ گلاب تھا ،
جسے آندھیوں سے خطر نہ تھا ، جسے تھا خزاں کا نہ ڈر کوئی .
تیری بے رخی کے دیار میں ، گھنی تیرگی كے حصار میں ،
جلے کس طرح سے چراغ جان ، کرے کس طرف کو سفر کوئی .
کٹے وقت چاھے عذاب میں ، کسی خواب میں ، یا سَراب میں ،
جو نظر سے دور نکل گیا ، اسے یاد کرتا ہے ہر کوئی .
سَرِ بزم جتنے چراغ تھے ، وہ تمام رمز شناس تھے ،
تیری چشمِ خوش كے لحاظ سے ، نہیں بولتا تھا مگر کوئی .
کسی واپسی کا خیال بھی
Posted on Mar 22, 2014
سماجی رابطہ